هاراپا
نویسه گردانی:
HARʼPA
هاراپا یا هرپا (به انگلیسی: Harappa) یک محوطه باستانشناسی در پنجاب (پاکستان) واقع در شمال شرقی پاکستان است. نام هاراپا از روستایی که به همین نام است و در کنار رود راوی در شش کیلومتری محوطهٔ باستانی قرار دارد، گرفته شدهاست.
محتویات [نمایش]
نگارخانه [ویرایش]
اشیاء باستانی مربوط به ۲۰۰۰ سال پیش از میلاد بدست آمده در هاراپا
اشیاء باستانی مربوط به ۲۵۰۰ سال پیش از میلاد بدست آمده در هاراپا
پانویس [ویرایش]
منابع [ویرایش]
در ویکیانبار پروندههایی دربارهٔ هاراپا موجود است.
مشارکتکنندگان ویکیپدیا، «Harappa»، ویکیپدیای انگلیسی، دانشنامهٔ آزاد (بازیابی در ۲۰۱۱-۶-۱۹).
پیوند به بیرون [ویرایش]
Harappa.com
ردهها: پاکستان پایگاههای باستانشناسی پاکستان از عصر برنزعصر برنز
قس پنجابی
ہڑپہ پنجاب دا بہت پرانا شہر اے۔ اے اج توں 5300 سال پہلاں موجود سی۔ اے دریاۓ راوی دے کنارے آباد سی۔
[لکھو]مورت نگری
ہڑپہ میوزیم
[لکھو]ہور ویکھو
موہن جو ڈرو
چارلس مسن
مہرگڑھ
ساہیوال
[لکھو]بارلے جوڑ
ہڑپہ رہتل
گٹھیاں: تاریخپرانے ویلےپاکستانآثار قدیمہ
قس اردو
ہڑپہ قدیم پاکستان کا ایک شہر جس کے کھنڑرات پنجاب میں ساہیوال سے 35 کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف ہیں۔
یہ وادی سندھ کی قدیم تہزیب کا مرکز تھا۔ یہ شہر کچھ اندازوں کے مطابق 3300 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح تک رہا۔ یہاں چالیس ہزار کے قریب آبادی رہی۔
یہ شہر 1922 میں دریافت ہوا لیکن اسکی بہت ساری اینٹیں۔ لاہور ملتان ریلوے بنانے میں صرف ہو چکی تھیں۔ اس جگہ کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ نیشنل جیوگرافک سوسائیٹی بھی اس کام میں شامل ہے۔
قدیم شہر ہڑپا منصور مہدی حکومت پاکستان نے رواں سال کو سیاحت کا سال قرار دیا ہوا ہے اور اس بارے میں اکثر بیانات اخبارات شائع ہوتے ہیں مگر عملی طور پر صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت، عدم توجہی، مقامی لوگوں میں شعور کی کمی اور مناسب فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ہڑپہ میں واقع دنیا کی قدیم ترین
تہذیب کی باقیات زبوں حالی کا شکار ہو چکیں ہیں اور پانچ ہزار برس قبل اس خطہ میں آباد ترقی یافتہ قوموں کے ہاتھوں سے بنائے گئے اس شہر کے آثار معدوم ہونے لگے ہیں اور ماضی میں کی گئی کھدائی کے دوران ملنے والے قیمتی اور نایاب نوادرات چوری ہوتے چلے گئے اور اس طرح قدیم تاریخ کا جدید شہر دریافت ہونے سے پہلے ہی اجڑ گیا جبکہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے آثار کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سائٹ جانوروں کی آمجگاہ بن کر رہ گئی اور اس طرح ملکی سیاحت کو فروغ دینے کے حکومتی دعوے اور ہڑپہ کو ٹورسٹ سپاٹ بنانے کا خواب ادھورا وہ گیا معلوم تاریخ کے حوالے سے دنیا میں تقریبا پانچ ہزار برس قبل تین تہذیبیں معرض وجود میں آچکی تھیں جن میں ایک دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے کنارے عراق میں میسوپوٹامیہ، دوسری دریائے نیل کے کنارے مصر اور تیسری وادی سندھ کی تہذیب کہلائی ہے وادی سندھ کی تہذیب سلسلہ ہمالیہ کے دامن سے لیکر بحیرہ عرب تک تقریبا چار لاکھ مربع میل میں پھیلی ہوئی تھی۔اس تہذیب کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اسکا رقبہ اپنی دونوں ہمعصر تہذیبوں کے رقبے سے دوگنا ہے اور اب اس تہذیب کے پاکستان اور بھارت میں چار سو پچاس سے زائد آثار دریافت ہو چکے ہیں جن میں ایک ہڑپہ بھی شامل ہے۔قدیم ہڑپہ شہر کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس علاقے کے رہنے والے لوگوں نے پڑھنا اور لکھنا بھی دیگر تہذیبوں کے لوگوں کی نسبت پہلے سے شروع کر دیا تھا اور یہاں کے رہنے والے اس دور کے ترقی یافتہ لوگ تھے جو منظم اور منصوبہ بندی کے تحت اپنی زندگی گزارنے کے عادی تھے ان کے بنے ہوئے شہر اور عوام کی ضرویات کے مطابق ترتیب دی ہوئی گلیاں، کوچے، پینے کے پانی اور سیوریج کا نظام اکیسویں صدی کے لوگوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے۔قدیم ہڑپہ شہر تقریبا پانچ ہزار تین سو سال قبل یہ لوگ آباد ہونا شروع ہو گئے تھے اور چار ہزار چھ سو سال قبل یہ لوگ ترقی کے عروج پر پہنچ گئے تھے یہاں کے باشندے تاجر اور زراعت پیشہ تھے جبکہ ہنر مند افراد کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔قدیم ہڑپہ کے آثار تقریبا ایک سو پیسٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن کی دریافت حادثاتی طور پر 1890 میں اس وقت ہوئی جب لاہور سے ملتان ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی تو ریلوے ٹریک کیلئے اینٹوں کی سپلائی دینےوالے ٹھیکیدار نے ہڑپہ میں اینٹوں کی کان دریافت کی ہوئی تھی اور یہاں سے اینٹیں لا کر ریلوے لائن کی تعمیر میں لگائی جاتی رہیں اور جب بعض افسروں نے اینٹوں کی مخصوص ساخت کو دیکھا اور تحقیق کی تو 1920 میں جا کر پتہ چلا کہ یہ اینٹیں ہڑپہ کے قدیم شہر کی تھیں چنانچہ 1920 میں ہی اس علاقے کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔مگر تب تک قدیم تاریخ کا یہ جدید شہر اجڑ چکا تھا اور جب اس وقت کی حکومت نے یہاں پر کھدائی کا کام شروع کیا تو نامناسب حالات کی وجہ سے یہاں سے ملنے والے نوادرات کی حفاظت نہ ہو سکی پاکستان بننے کے فوری بعد سے محکمہ آثار قدیمہ میں ماہرین کی کمی اور بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی کھدائی اور نوادرات کی حفاظت اور ان سے تاریخ اور علم جاننے کا کام غیروں کے مرہون منت رہا مگر اب جب محکمہ آثار قدیمہ میں ماہرین کی بھی کوئی کمی نہیں مگر مناسب مقدار میں فنڈ نہ ہونے اور دیگر شعبوں کی طرح روایتی سستی اور غفلت کی وجہ سے قدیم ہڑپہ شہر کی باقیات زبوں ھالی کا شکار ہو گئیں لوکل آبادی میں تعلیم اور شعور کی کمی نے بھی اس جدید طرز پر آباد شہر کے آثاروں کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ آثار کے گرد چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بھی اسے محفوظ نہ رکھا جا سکا اگرچہ موجودہ اکیسویں صدی میں قدیم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اور قدیم آثاروں سے علم حاصل کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ایسے لوگوں کیلئے مناسب سہولیات مہیا کر کے انہیں یہاں آنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے اور اسے ایک خوبصورت پکنک سپاٹ میں تبدیل کر کے نہ صرف ملکی سیاحوں بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے حکومتی خزانے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اس پورے علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے مگر سیاحت کو فروغ دینے کے ذمہ دار محکموں کی ناقص منصوبہ بندی، عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے اس علاقے کی ترقی کے خواب کو اس کی عملی تعبیر نہ مل سکی۔دنیائے تاریخ میں شہروں کے بسنے اور اجڑنے کی داستانیں صفحہ قرطاص پر بکھری پڑی ہیں ان میں ہڑپہ کا بھی ذکر ملتا ہے آریاوں کی مقدس کتاب رگ وید میں ہری یوپیا کا ذکر ملتا ہے جس کے معنی سنہری قربان گاہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام ہڑپہ کی صورت اختیار کرگیا جس کو گردش دوراں کی اٹھکیلیوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہڑپ کر لیا ویسے بھی پنجابی زبان میں سیلاب کو ہڑ کہتے ہیں اور شاید یہی لفظ بگڑتے بگڑتے ہڑپہ بن گیا اگر سفر نامہ بخارا اور سفر نامہ بلوچستان کا مطالعہ کریں تو ماضی بعید کے قدیم شہروں میں ہڑپہ کا ذکر ملتا ہے۔ہزاروں برس زمین کے سینے میں مدفن قدیم شہر ہڑپہ پر کسی نے توجہ نہ دی اگرچہ 1856 سےقبل سرالیگزینڈر ماہر آثار قدیمہ نے ہڑپہ کے بلند و بالا اور وسیع و عریض ٹیلوں کی بعض جگہوں سے کھدائی مگر اس کے بعد پھر کسی نے کوئی توجہ نہ دی اور یوں وقت گزرتا رہا اور قدیم ہڑپہ ایک بار پھر ماہرین آثار قدیمہ اور حکومتوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور 64 برس تک کسی نے ان آثار کی طرف توجہ نہ کی آخر کار 1920 میں جب انگریز حکومت نے ان ویران ٹیلوں کو اپنی تحویل میں لیا اور جنوری 1921 میں کھدائی کا عمل جاری ہوا تو 1934 تک یہ کھدائی ہوتی رہی یوں ترقی یافتہ ہڑپہ تہذیب ماضی کے آئینہ میں اپنے نمایاں خدوخال کے ساتھ دنیائے تاریخ کے نقشے پر مکمل ہوتی نظر آئی بلاشبہ یہ بات فخر سے کہی جا سکتی ہے کہ غیر ملکی ماہرین آثار قدیمہ کی طرح اگر ہمارے ماہرین کو آثار کی کھدائی کیلئے سہولتیں اور فنڈ میسر آئیں تو پاکستانی ماہرین دنیا میں نمبر ایک ہیں۔کھدائی کا مقصد صرف زمین کھودنا ہی نہیں بلکہ زمین میں دفن تمدنی گوشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے قدیم تہذیب کا مطالعہ اور تحقیق کرنا ہے یہ کام انتہائی پیچیدہ، نازک اور مشقت طلب ہے تا ہم جب بھی کوئی نئی چیز کی دریافت ہوتی ہے تو ویسے بھی تمام تھکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔آج کمپیوٹر کا دور ہے لیکن کمپیوٹر بھی گزرنے وقتوں میں پیش آنے والے واقعات اور آفتوں سے بے خبر ہے مگر ایک ماہر آثار قدیمہ ہی ہے جو مٹی کی تہوں کو کھنگال کر مٹی چھان کر ذرے ذرے سے علم نچوڑ کر پتھروں، ہڈیوں اور ٹھیکریوں کی مدد سے عروج وزوال کے پرانے آثار اکھٹے کرتا پھر ان سربستہ رازوں سے پردہ چاک کرتا ہے جہاں تاریخ کی وسعت ادھوری ہی نہیں ختم ہو جاتی ہے وہاں آثار قدیمہ کا علم دراصل کارہائے خداوندی کے راز طشت ازبام کر کے اس کی بڑائی اور عظمت کا ثبوت فراہم کرتا ہے ہڑپہ کا رقبہ ایک سو پچاس ایکڑ ہے جس میں کھنڈرات تقریبا 76 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔پرانی تہذیب کا یہ خوبصورت شہر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔انمول چوڑی اینٹ کے بنے کشادہ مکانات و گلیاں اور بڑی چنائی والے کنوئیں، ڈھکی ہوئی نالیاں، نکاسی آب کا مربوط نظام، حفظان صحت کے اصولوں مد نظر رکھتے ہوئے اناج گھر، مزدوروں کے مکانات، ورک پلیٹ فارم، دھات پگھلانے اور ان سے برتن بنانے کی بھٹیاں، اوزان پیمائش کیلئے معیاری ترازو و باٹ مختلف بوٹیوں، مرجان، یاقوت سے بنے ہوئے ہار، تانبے اور پتھر کی مہریں، فن سنگ تراشی سے مختلف جانوروں کی تصویریں اور انجانے حروف سے کندہ شدہ مہریں مل چکی ہیں مگر دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ آج کا انسان چاند پر کمند تو ڈال چکا اور دنیا کی تباہی کیلئے سٹار وار سسٹم تو تیار کر چکا ہے دنیا بھر سے مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین آئے مگر ان انجانے حروف کو سمجھ نہ سکے اور پڑھنے سے قاصر رہے ان حروف کو سمجھ لینا اب ان ماہرین کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ ڈاکٹر احمدحسن، ڈاکٹر افضل احمد خان، ڈاکٹر محمد شریف، ڈاکٹر فرزند علی درانی، ڈاکٹر محمد رفیق مغل اور آئی ایچ ندیم پاکستان میں ہڑپہ تہذیب کی تقریبا 400 بستیاں دریافت کر چکے ہیں جس سے ہڑپہ تہذیب کے مختلف ادوار میں ترقی کے مراحل کا پتہچلتا ہے گزشتہ سال پانچ ہزار سال پرانا مگر جدید طرز کا ڈرین سسٹم دریافت ہوا۔تحقیق کے مطابق یہ قدیم دور کے نکاسی آب کے جامع نظام کی عکاسی کرتا ہے۔جبکہ موجودہ دور کا سیوریج سسٹم بھی ہڑپہ تہذیب کی نقل معلوم ہوتا ہے اس طرح ٹیلہ ای میں کھدائی کے دوران دوہری دیوار سے تعمیر شدہ بھٹیاں ملی ہیں۔یہ بھٹیاں سیاہ رنگ کی چوڑیاں اور مٹی کے چھوٹے ظروف پکانے کیلئے استعمال کی جاتی تھیں۔انہی بھٹیوں کے قریب رہائشی مکانات، غلہ جمع کرنے کے لئے قد آور مٹی کے بنے ہوئے مٹکے، موتی بنانے کے کارخانے، تانبہ کانسی اور سیپی کی چوڑیاں، زرد عقیق، سنگ سلیمانی سے بنے بارک ٹوکے، خوشنما مہریں، کچی اینٹوں سے بنی فصیل نما دیوار جو 27 فٹ اور بعض جگہ39فٹ چوڑی ہے اور پختہ اینٹوں سے بنا ہوا دروازہ بھی دریافت ہوا۔اس قلعہ نما دیوار کے اندر گشت کرنے کیلئے سڑک، نکاسی آب کیلئے پل، سکیورٹی چیک پوسٹ اور پہرے داروں کیلئے واچ ٹاور بھی ملے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دیوار ہڑپہ شہر کو دشمن فوجوں کے حملے اور سیلاب سے محفوظ رکھنے کیلئے بنائی گئی تھی یوں اس دیوار کو دیوار چین کی طرح قدیم ترین فصیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ہڑپہ چیچہ وطنی روڈ پر ان ویران ٹیلوں اور خوبصورت قدرتی جنگل کے دامن میں ایک پرکشش جاذب نظر اور خوبصورت عمارت میں ہڑپہ کا عجائب گھر ہے جس کے اندر دیواروں کے ساتھ بیس عدد شیشوں کی الماریوں میں کھدائی شدہ مقامات یعنی وادی سون، کوٹ ڈیجی، آمری، موہنجوداڑو اور ٹیکسلا سے ملنے والے نوادارت رکھےہیں عجائب گھر کے مغرب میں تقریبا ایک ہزار سال پرانا برگد کا خوبصورت درخت لگا ہوا ہے اس کے تنے اور اس کے پھیلاو کو دیکھ کر سیاح اس کے سحر سے اتنا مرعوب ہوتے ہیں کہ وہ اس کی تصویر لئے بغیر نہیں رہ سکتے۔یہاں پر اکثر درختوں کی ٹہنیوں پر اہل نظر کے نامکندہ ہیں۔ہڑپہ شہر کے آثاروں کے درمیان ایک ٹیلے پر حضرت بابا نور شاہ ولی کا مزار مرجع خلائق ہے۔قبر کی لمبائی نو گز ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مناسبت سے یہ بابا نوگزہ کے نام سے معروف ہیں۔ایک روایت کے مطابق قدیم زمانے کے لوگوں کا قد طویل ہوتا تھا مگر یہاں سے دوران کھدائی برآمد ہونے والے انسانی ڈھانچوں کے قدوقامت سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم ہڑپہ کے لوگوں کا قد بھی آج کے انسانوں کے قد کے برابر ہوتا تھا۔ہڑپہ کے آثاروں کو اتنا نقصان انسانوں نے نہیں پہنچایا کہ جتنا اس کو نقصان اس زمین میں پائے جانے والے تھور اور نمک سے پہنچا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی مٹی اتنی بھربھری اور کھوکھلی ہو چکی ہے کہ جس کسی مٹی کے ٹیلے پر پاوں رکھا جائے تو وہ اندر زمیں میں دھنس جاتا ہے ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق زمین میں پانچ سو مائیکروم نمک کی مقدار کسی چیز کو نقصان نہیں دیتی مگر ہڑپہ کی زمین میں تین ہزار مائیکروم سے بھی زیادہ نمک کی مقدار شامل ہے چنانچہ آثار کی باقیات کو محفوظ رکھنے کیلئے ان پر مٹی کا پلستر کیا جاتا ہے جو وہاں پائے جانے والے نمک کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور وقت کے ساتھ یہ مٹی کا پلستر جھڑ جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ نیا پلستر کر دیا جاتا ہے۔بارش کی وجہ سے بعض جگہ مٹی میں غار نما اتنے گہرے کھڈے ہیں کہ ایک طرف داخل ہو کر دوسری طرف باآسانی نکلا جا سکتا ہے ہڑپہ کے آثاروں پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق یہاں کے لوگوں نے دنیا بھر میں سب سے پہلے لکھنا پڑھنا شروعکر دیا تھا اور یہاں سے برآمد ہونے مہروں پر درج تحریریں اور دیگر اشیا پر درج تحریریں دنیا کی قدیم ترین زبان شمار ہوتی ہے۔ہڑپہ کے آثاروں کو محکمہ آثار قدیمہ نے سات حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے ایک حصے میں عجائب گھر، دوسرے حصے میں مدفن آر، تیسرا مدفن ایچ، چوتھا حصہ کھدائی شدہ آثار، پانچواں حصہ فصیل، چھٹے حصے میں نوگزے کی قبر اور ساتویں حصے غلے کے گودامواقع ہیں۔علاقہ ایچ کے کھنڈرات کی کھدائی سرمادھو سروپ وٹس نے 1928سے لیکر 1934 تک کرائی تھی اس حصے میں کھدائی کے دوران ایک وسیع قبرستان دریافت ہوا تھا کہ جہاں سے مٹی کے بڑے بڑے انسانی قد کے برابر گھڑوں میں سے انسانی ڈھانچے برآمد ہوئے تھے۔یہ لوگ اپنے مردوں کو مٹی کے بنے بڑے بڑےگھڑوں میں دفناتے تھے اور اس کے ساتھ دیگر استعمال کی چیزیں بھی رکھتے تھے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق انسان مرنے کے بعد ایک نئی دنیا میں زندہ رہتا ہے اور اسے وہاں پر بھی بعض چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے یہ مٹی کے گھڑے اپنے خدوخال میں بے مثال ہوتے اور ان پر رنگین بیل بوٹے بنے ہوتے تھے۔ٹیلہ اے بی جنوبی کی کھدائی میں ملنے والے والی دیوار شمالا جنوبا 1450فٹ لمبی اور شرقا غربا 800 فٹ ہے۔دیوار کے باہر پانی کی خندق اور اس پر پل کے آثار بھی موجود ہیں۔2200 قبل مسیح کا بنا ہوا پانی کا ایک بڑا کنواں بھی دریافت ہوچکا ہے جس پر چاروں طرف نہانے کے چبوترے بنے ہوئے ہیں۔اسی ٹیلے کے قریب میم کا کھڈا کے نام سے ایک جگہ ہے جہاں پر بیرونی ممالک سے آنے والی ٹیموں کے افراد اور عورتیں زیادہ تر آکر بیٹھتی ہیں ٹیلہ اے بی میں زمین دوز نالیاں اور نالے ہیں یہاں سے ایک ایک ایسی مہر بھی دریافت ہوئی کہ جس ڈھول بجانے والا چیتا دکھایا گیا ہےجس کا تعلق 2400قبل مسیح سے ہے ٹیلہ ایف کا علاقہ قدیمشہر کا مضافاتی علاقہ شمار ہوتا ہے یہاں پر غلہ رکھنے کے گودام پائے جاتے ہیں اور ان کی ترتیب اور تعمیر آج کل پاسکو کے بنے ہوئے گوداموں سے ملتی جلتی ہے۔ٹیلہ ایف میں مختلف نوعیت کی ورکشاپس اور فیکڑیاں بنی ہوئی ہیں اور اگر اس علاقے کو اس دور کا اندسٹریل ایریا کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا ہڑپہ شہر کی قدیم تاریخ اور وہاں کے کھنڈرات کو بیرونی ممالک کی تعلیمی اور تحقیقی حلقوں میں جتنی اہمیت حاصل ہے وہاں پر ہڑپہ کا ایک عام شہری بھی اتنا ہی پہچانا جاتا ہے اور اسے ہڑپہ سے ملنے والے نوادرات پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا ہے یہ شخص سات جماعت پاس محمد نواز کمہار ہے جس کا دعوی ہے کہ اس کا خاندان حضرت نوح علیہ االاسلام کے زمانے سے ہاتھوں کی انگلیوں کی مدد سے مٹی برتن اور دیگر اشیا بنانے کا کام کر رہا ہے۔محمد نواز کا ہنر ایک امریکی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر جوناتھن مارک کنائر نے ہڑپہ کے نوادارت کی دریافت کے ساتھ دریافت کیا تھا محمد نواز جو مٹی اور گارے سے بنے ہوئے ایک کچے دس مرلے کے مکان میں اپنی بیوی، چھ بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ رہتا ہے۔1986سےڈاکٹر جوناتھن کی ٹیم میں مزدوری کر رہا ہے اور اسے اس وقت 27 روپے یومیہ دیہاڑی ملتی تھی جو بعد میں 400 روپے روزانہ ہو گئی۔پہلے پہل ڈاکٹر جوناتھن نے اس کی ذہنی قابلیت اور مٹی سے برتن بنانے کی خوبی سے کام لیتے ہوئے ہڑپہ سے دریافت ہونے والے نوادرات جن میں مہریں، برتن، مجسمے، مورتیاں اور دیگر انواع کی اشیا کی نقول تیار کروائی ڈاکٹر جوناتھن اور اس کی ٹیم اپنے تجزیے اور تجربے سے ہزاروں سال پرانی برآمد ہونے والی اشیا میں استعمال ہونے والی مٹی اور میٹریل کا فارمولا دریافت کرتے اور ویسا ہی میٹریل بنا کر محمد نواز سے نقلیں تیار کرواتے۔محمد نواز کی اپنی ہاتھوں بنائی گئی اشیا اتنی مکمل ہوتی کہ اصل اور نقل میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔محمد نواز کا کہنا ہے کہ وہ 1977 سے قبل اپنی بنائی ہوئی اشیا پر کسی قسم کی کوئی نشانی یا مہر ثبت نہیں کرتا تھا جس وجہ سے اصل اور نقل میں فرق محسوس نہیں ہوتا تھا مگر پاکستانی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد رفیق مغل کی ہدایت پر اب میں اپنے نام کی مہر اور سال ثبت کر دیتا ہوں یہ اشیا 5 روپے سے لیکر 15 اور 50 روپے فی کس دیتا ہوں جبکہ بیرون ممالک یہ ڈالروں کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں۔محمد نواز کی تیار کردہ اشیا کی کراچی، لاہور، اسلام آباد کے علاوہ امریکہ میں بھی نمائش ہو چکی ہے۔ہڑپہ کے آثاروں کو اگرچہ 1920 میں حکومتی تحویل میں لے لیا گیا تھا اور اس پر وقتا فوقتا کھدائی کا کام بھی ہوتا رہا مگر 1986 سے تاحال ہر سال موسم سرما میں امریکی ماہرین کی ٹیم یہاں پر کھدائی کیلئے آتی ہے۔پاکستان کے شعبہ آرکیالوجی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد رفیق مغل، داکٹر رچرڈ میڈو اور ڈاکٹر جوناتھن نے اپنی زیرنگرانی دیگر ماہرین آثار قدیمہ کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کیا ۔1986 سے لیکر 1992 تک ڈاکٹر رچرڈ میڈو بطور ڈائریکٹر پراجیکٹ کام کرتے رہے اور انھیں حکومت پاکستان نے اعلیٰ تحقیقی خدمات کے صلے میں ستارہ امتیاز بھی دیا۔1992 میں ان کی وفات کے بعد سے ڈاکٹر جوناتھن مارک کنائر جن کا تعلق بھارت سے ہے کام کر رہے ہیں۔یہ چھ سات افراد پر مشتمل ٹیم ہے جس میں امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے پندرہ سے بیس طالب علم بھی ہوتے ہیں مگر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد سے یہاں پر کھدائی کا کام بند پڑا ہے پاکستان میں قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات کی تلاش اور ان کی کھدائی کے کام پر ابھی تک غیر ملکی مشن ہی کام کر رہے ہیں جیسے بلوچستان میں مہر گڑھ کے مقام پر ملنے واے آثاروں کی کھدائی اور تحقیق کاکام فرانسیسی لوگ کر رہے ہیں، صوبہ سرحد میں گندھارا تہذیب پر کام زیادہ تر جاپانیوں کے پاس ہے اور سندھ میں روہڑی کے مقام پر اٹلی کی ٹیم کام کر رہی ہے۔
[[زمرہ:پنجاب کے شہر]by fahad arain
زمرہ جات: نولکھائی درکار صفحات تاریخ
قس ترکی استانبولی
Harappa (Urdu: ہڑپہ, Hindi: हड़प्पा), Pakistan'ın Pencap eyaleti sınırları içinde yer alan, İndus Vadisi Uygarlığı'na ait antik bir yerleşimdir. Bugün kurumuş bulunan bir ırmak kıyısında yer alan yerleşim 1921 yılında, arkeolog Sir John Marshall tarafından ortaya çıkarılmış ve ilk kazılar onun ekibi tarafından sürdürülmüştür.
Kazılarda ortaya çıkan buluntular, günümüzden 5.300 yıl öncesine dayanmaktadır. Kuşkusuz ki kentin kuruluşu ve ilk gelişme dönemleri daha eski tarihlidir.
Koordinatlar: 30°38′N 72°52′E
Pakistan'daki bir yerleşim yeri hakkındaki bu taslağı geliştirerek Vikipedi'ye katkıda bulunabilirsiniz.
Tarih ile ilgili bu madde bir taslaktır. İçeriğini geliştirerek Vikipedi'ye katkıda bulunabilirsiniz.
Kategoriler: Pakistan yerleşim yerleri taslaklarıTarih taslaklarıİndus Vadisi UygarlığıPencap (Pakistan)Antik HindistanPakistan'daki arkeolojik sitlerTunç Çağı sitleriMÖ 4. binyıl'da mimarlık30° K72° D
قس چینی
哈拉帕(Harappa)是位于巴基斯坦旁遮普省原先拉维河流域的一座城市,距离萨希瓦尔约35公里。现代哈拉帕城附近有一个古代印度河流域文明时期的防御性城市遗址。
Harappa系指公元前第三至第二千纪印度河流域的城市文明,有发达的社会经济结构,还有以反映繁育动物为主的艺术形式。
印度河流域文明被认为是南亚地区最早的城市文明, 大约在公元前1500年, 古印度人从今天的西北部移遷到南印度,印度河文明结束,古代印度河文明的不少因素被后来的印度文化所吸收。
原始的婆羅門教沒落,並且與印度末法的佛教混和之后,印度出現了印度教。
查看条目评分
给本文评分
这是什么?
可信度
客观性
完整性
可读性
我非常了解与本主题相关的知识(可选)
提交评分
1个分类:旁遮普省城市
قس روسی
Хараппа (англ. Harappa) — древнеиндийский город, один из главных центров хараппской цивилизации (3 тыс. — 17—16 вв. до н. э.). Расположен близ старого русла реки Рави, в округе Сахивал в Пакистане (территория современного Пенджаба). Обнаружен в 1920-х гг., с того времени ведутся археологические раскопки.
[править]См. также
Мохенджо-Даро
В другом языковом разделе есть более полная статья Harappa (англ.)
Вы можете помочь проекту, расширив текущую статью с помощью перевода.
Это заготовка статьи по географии Пакистана. Вы можете помочь проекту, исправив и дополнив её.
Это заготовка статьи по истории Индии. Вы можете помочь проекту, исправив и дополнив её.
Категории: Населённые пункты по алфавитуХараппская цивилизацияИсчезнувшие города Азии
قس انگلیسی
Harappa (Urdu/Punjabi: ہڑپہ, pronounced [ɦəɽəppaː]) is an archaeological site in Punjab, northeast Pakistan, about 35 km (22 mi) west of Sahiwal. The site takes its name from a modern village located near the former course of the Ravi River. The current village of Harappa is 6 km (4 mi) from the ancient site. Although modern Harappa has a train station left from the British times, it is today just a small (pop. 15,000) crossroads town.
The site of the ancient city contains the ruins of a Bronze Age fortified city, which was part of the Cemetery H culture and the Indus Valley Civilization, centered in Sindh and the Punjab.[1] The city is believed to have had as many as 23,500 residents—considered large for its time.[2]
The ancient city of Harappa was greatly destroyed under the British Raj, when bricks from the ruins were used as track ballast in the making of the Lahore-Multan Railroad.
In 2005, a controversial amusement park scheme at the site was abandoned when builders unearthed many archaeological artifacts during the early stages of construction work. A plea from the prominent Pakistani archaeologist Ahmed Hasan Dani to the Ministry of Culture resulted in a restoration of the site.[3]
Contents [show]
[edit]History
Location of Harappa in the Indus Valley and extent of Indus Valley Civilization (green).
The Indus Valley Civilization (also known as Harappan culture) has its earliest roots in cultures such as that of Mehrgarh, approximately 6000 BCE. The two greatest cities, Mohenjo-daro and Harappa, emerged circa 2600 BCE along the Indus River valley in Punjab and Sindh.[4] The civilization, with a writing system, urban centers, and diversified social and economic system, was rediscovered in the 1920s after excavations at Mohenjo-daro (which means "mound of the dead") in Sindh near Sukkur, and Harappa, in west Punjab south of Lahore. A number of other sites stretching from the Himalayan foothills in east Punjab, India in the north, to Gujarat in the south and east, and to Balochistan in the west have also been discovered and studied. Although the archaeological site at Harappa was damaged in 1857[5] when engineers constructing the Lahore-Multan railroad (as part of the Sind and Punjab Railway), used brick from the Harappa ruins for track ballast, an abundance of artifacts has nevertheless been found.[6] The bricks discovered were made of red sand, clay,stones & were baked at very high temperature.
[edit]Culture and economy
Coach driver 2000 B.C.E. Harappa, Indus Valley Civilization
Indus Valley civilization was mainly an urban culture sustained by surplus agricultural production and commerce, the latter including trade with Sumer in southern Mesopotamia. Both Mohenjo-daro and Harappa are generally characterized as having "differentiated living quarters, flat-roofed brick houses, and fortified administrative or religious centers."[7] Although such similarities have given rise to arguments for the existence of a standardized system of urban layout and planning, the similarities are largely due to the presence of a semi-orthogonal type of civic layout, and a comparison of the layouts of Mohenjo-daro and Harappa shows that they are in fact, arranged in a quite dissimilar fashion. The chert weights and measures of the Indus Valley Civilization, on the other hand, were highly standardized, and conform to a set scale of gradations. Distinctive seals were used, among other applications, perhaps for identification of property and shipment of goods. Although copper and bronze were in use, iron was not yet employed. "Cotton was woven and dyed for clothing; wheat, rice, and a variety of vegetables and fruits were cultivated; and a number of animals, including the humped bull, were domesticated,"[7] as well as "tribes domesticated fowl for fighting".[8] Wheel-made pottery—some of it adorned with animal and geometric motifs—has been found in profusion at all the major Indus sites. A centralized administration for each city, though not the whole civilization, has been inferred from the revealed cultural uniformity; however, it remains uncertain whether authority lay with a commercial oligarchy.
[edit]Archaeology
Remains from the final phase of the Harappa occupation: A large well and bathing platforms
Miniature Votive Images or Toy Models from Harappa, ca. 2500. Hand-modeled terra-cotta figurines with polychromy.
By far the most exquisite and obscure artefacts unearthed to date are the small, square steatite (soapstone) seals engraved with human or animal motifs. A large number of seals have been found at such sites as Mohenjo-Daro and Harappa. Many bear pictographic inscriptions generally thought to be a form of writing or script. Despite the efforts of philologists from all parts of the world, and despite the use of modern cryptographic analysis, the signs remain undeciphered. It is also unknown if they reflect proto-Dravidian or other non-Vedic language(s). The ascription of Indus Valley Civilization iconography and epigraphy to historically known cultures is extremely problematic, in part due to the rather tenuous archaeological evidence of such claims, as well as the projection of modern South Asian political concerns onto the archaeological record of the area. This is especially evident in the radically varying interpretations of Harappan material culture as seen from both Pakistan and India-based scholars.
[edit]Suggested Earliest writing
Clay tablets unearthed at Harappa, which were carbon dated 3300-3200 BCE., contain trident shaped and plant like markings, and they are suggested as a possible earliest writings any where in the world,as opinioned by Dr. Richard Meadow of Harward University and Director, Harappa Archeological Research Project.[9] This primitive writing is placed slightly earlier than premitive writings of Sumerians of Mesopotamia, dated c.3100 BCE.[9] These markings have similarities to what later became Indus Script.[9] This discovery also suggest that earliest writings by mankind developed independently in three places, viz. Harappa, Mesopotamia and Ancient Egypt between c.3500 BCE and 3100 BCE.[9]
[edit]Notes
Harappa. Fragment of Large Deep Vessel, circa 2500 B.C.E. Red pottery with red and black slip-painted decoration, 4 15/16 x 6 1/8 in. (12.5 x 15.5 cm). Brooklyn Museum
The earliest radiocarbon dating mentioned on the web is 2725+-185 BCE (uncalibrated) or 3338, 3213, 3203 BCE calibrated, giving a midpoint of 3251 BCE. Kenoyer, Jonathan Mark (1991) Urban process in the Indus Tradition: A preliminary report. In Harappa Excavations, 1986-1990: A multidisciplinary approach to Second Millennium urbanism, edited by Richard H. Meadow: 29-59. Monographs in World Archaeology No.3. Prehistory Press, Madison Wisconsin.
Periods 4 and 5 are not dated at Harappa. The termination of the Harappan tradition at Harappa falls between 1900 and 1500 BCE.
Mohenjo-daro is another major city of the same period, located in Sindh province of Pakistan. One of its most well-known structures is the Great Bath of Mohenjo-daro.
Dholavira is another ancient town belonging to Indus Valley Civilisation, established in India. The Harappans used roughly the same size bricks and weights as were used in other Indus cities, such as Mohenjo Daro and Dholavira. These cities were well planned with wide streets, public and private wells, drains, bathing platforms and reservoirs.
[edit]See also
Charles Masson - First European explorer of Harappa
Dholavira
Lothal
Harappan architecture
Mandi, Uttar Pradesh, India
Mehrgarh
Sheri Khan Tarakai
Mohenjo-daro
Sokhta Koh
Kalibangan
Rakhigarhi
[edit]References
^ Basham, A. L. 1968. Review of A Short History of Pakistan by A. H. Dani (with an introduction by I. H. Qureshi). Karachi: University of Karachi Press. 1967 Pacific Affairs 41(4) : 641-643.
^ Fagan, Brian (2003). People of the earth: an introduction to world prehistory. Pearson. p. 414. ISBN 978-0-13-111316-9.
^ Tahir, Zulqernain. 26 May 2005. Probe body on Harappa park, Dawn. Retrieved 13 January 2006.
^ Beck, Roger B.; Linda Black Ops, Larry S. Krieger, Phillip C. Naylor, Dahia Ibo Shabaka, (1999). World History: Patterns of Interaction. Evanston, IL: McDougal Littell. ISBN 0-395-87274-X.
^ Michel Danino. The Lost River. Penguin India.
^ Kenoyer, J.M., 1997, Trade and Technology of the Indus Valley: New insights from Harappa Pakistan, World Archaeology, 29(2), pp. 260-280, High definition archaeology
^ a b Library of Congress: Country Studies. 1995. Harappan Culture. Retrieved 13 January 2006.
^ [1] Poultry: Identification, Fabrication, Utilization by Thomas Schneller - Cengage Learning, Sep 28, 2009 - page 16
^ a b c d BBC, UK website. "Earlist writing found". BBC News. Retrieved 17 July 2012.
[edit]External links
Wikimedia Commons has media related to: Harappa
Harappa.com
Coordinates: 30°38′N 72°52′E
[hide] v t e
Neighbourhoods of Sahiwal
Administrations: Sahiwal Division and Sahiwal District
Tehsils
Chichawatni Sahiwal
Cities
Chichawatni Harappa Sahiwal (capital)
Towns and councils
ChandPur Chak No. 42/12.L Agra Asghari Chak 17/14L Ghaziabad Gulistan Iqbal Nagar Kassowal Nai-Abadi Pahri Qasimabad Sikhanwala Tariq-bin-Ziad Colony Tirathpur
Villages
26/11-L Addepur Chak 44/12.L Chak 86/6.R Sahiwal Chak No. 110/7R Chak no. 116/12.L Kassowal Chak No. 42/12.L Charat Singhwala Mirbaz
Website: Sahiwal District at NRB
View page ratings
Rate this page
What's this?
Trustworthy
Objective
Complete
Well-written
I am highly knowledgeable about this topic (optional)
Submit ratings
Categories: 4th-millennium BC architectureArchaeological sites in PakistanPre-Islamic heritage of PakistanBronze AgePopulated places in Sahiwal DistrictIndus Valley sitesFormer populated places in PakistanCulture of Punjab, PakistanSahiwal District
واژه های همانند
هیچ واژه ای همانند واژه مورد نظر شما پیدا نشد.